Powered by Blogger.
RSS

فیض احمد فیض






تیرگی ہے کہ امنڈتی ہی چلی آتی ہے
شب کی رگ رگ سے لہو پھوٹ رہا ہو جیسے
چل رہی ہے کچھ اس انداز سے نبضِ ہستی
دونوں عالم کا نشہ ٹوٹ رہا ہو جیسے

رات کا گرم لہو اور بھی بہہ جانے دو
یہی تاریکی تو ہے غازۂ رخسارِ سحر
صبح ہونے ہی کو ہے اے دلِ بیتاب ٹھہر

ابھی زنجیر چھنکتی ہے پسِ پردۂ ساز
مطلق الحکم ہے شیرازۂ اسباب ابھی
ساغرِ ناب میں آنسو بھی ڈھلک جاتے ہیں
لغزشِ پا میں ہے پابندیِ آداب ابھی

اپنے دیوانوں کو دیوانہ تو بن لینے دو
اپنے میخانوں کو میخانہ تو بن لینے دو
جلد یہ سطوتِ اسباب بھی اُٹھ جائے گی
یہ گرانباریِ آداب بھی اُٹھ جائے گی

خواہ زنجیر چھنکتی ہی، چھنکتی ہی رہے

• — — — — • 
فیض احمد فیض

  • Digg
  • Del.icio.us
  • StumbleUpon
  • Reddit
  • RSS

0 comments:

Post a Comment